NationalPosted at: Aug 7 2024 7:42PM وقف ترمیماتی بل: ایک ضلع کلکٹر فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائداد وقف ہے یا نہیں:ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
نئی دہلی، 7 اگست (یو این آئی) صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرد)ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے دعوی کیا ہے کہ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ مودی حکومت جلد ہی پارلیمنٹ میں وقف سے متعلق دو بل پیش کرنے والی ہے ایک کے ذریعے وقف ایکٹ ۱۹۲۳ کو کینسل کیا جائے گا اور دوسرے کے ذریعے وقف ایکٹ ۱۹۹۵ میں دور رس تبدیلیاں لائی جائیں گی یہ تبدیلیاں اتنی خطرناک ہیں کہ اب ایک ضلع کلکٹر فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائداد وقف ہے یا نہیں اور اس کا فیصلہ آخری ہوگا۔ یہ جاری ایک بیان میں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے بل لانے میں حکومت وہی روش اپنا رہی ہے جو وہ پہلے سے کرتی آئی ہے، یعنی اصحاب معاملہ )مسلم سماج ) سے کوئی مشورہ کئے بغیر یہ نیا قانون پاس کیا جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک بنیادی اور اہم مسئلے پر متعلقہ سماج سے بات کرنے کی حکومت نے ضرورت نہیں سمجھی۔
اس بل کے ذریعے حکومت ”وقف “ کی نئی تعریف کرنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جو پچھلے پانچ سال سے اسلام پر پابند رہا ہو وہی اپنی جائداد کو وقف کر سکتا ہے۔ ترمیمات میں حکومت یہ بھی طے کر رہی ہے کہ وقف کی جائداد میں ہونے والی آمدنی کہاں خرچ ہوگی۔ یہ دونوں باتیں اسلامی قانون کے خلاف ہیں کیونکہ اسلامی قانون کے تحت کوئی بھی، یہانتک کہ غیر مسلم بھی، اپنی جائداد وقف کر سکتا ہے اور وقف کی آمدنی صرف اسی مد میں صرف کی جا سکتی ہے جسے وقف کرنے والے (واقف) نے طے کیا ہو۔
انہوں نے کہا کہ نئی ترمیمات نے یہ راستہ بھی کھول دیا ہے کہ وقف کاؤنسل اور ریاستی وقف بورڈوں کے ممبران غیر مسلم ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ وقف جائدادوں کو اب غیر مسلم ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے۔ مجموعی طور پر نئی ترمیمات کی منظوری ہونے پر ایک کلکٹر راج وجود میں آئے گا جو فیصلہ کرے گا کہ کون جائداد وقف ہے اور کون نہیں ہے۔ وقف ٹرائیبونل کے فیصلے بھی آخری نہیں ہوں گے جبکہ ملکیت کے سلسلے میں کلکٹر کا فیصلہ آخری ہوگا۔
سابق صدر دہلی اقلیتی کمیشن نے کہا کہ نئی ترمیمات سے یہ نئی ریت بھی پکی ہو رہی ہے کہ حکومت اہم اسلامی معاملات میں مسلم سماج سے مشورہ نہیں کرے گی۔ یہ ریت طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں ۲۰۱۹ کے بل سے شروع ہوئی تھی جب ایک وزیر نے پارلیمنٹ میں فخریہ اعلان کیا تھاکہ اس سلسلے میں مسلم سماج سے بات نہیں کی گئی ہے۔ یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں بھی یہی ہو رہا ہے اور جلد ہی وہ مرحلہ آئے گا جب مرکزی پارلیمنٹ میں بھی مسلم سماج سے مشورہ کئے بغیر ایک بل لاکر مرکزی یونیفارم سول کوڈ نافذ کر دیا جائے گا۔
نئی ترمیمات نے ریاستی حکومتوں کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جسے چاہے وقف بورڈ کا ممبر بنائیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ممبر مسلمان بھی ہوں۔ اسی طرح موجودہ ترمیمات کے ذریعے متولی کی واقف کے ذریعے زبانی تعیین کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ زبانی طور سے کوئی جائداد وقف نہیں کی جاسکے گی۔
انہوں نے دعوی کیاکہ ان ساری تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے مسلم علماء کا یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ وقف کے بارے میں اسلامی قانون کی تعیین و تشریح کریں۔ اسی کے ساتھ وقف چلانے کی ذمہ داری بھی غیر مسلمین کے ہاتھوں میں دی جا رہی ہے جو کہ مذہبی سماجوں کے اس حق کی پا مالی کرتا ہے کہ وہ اپنے اوقاف کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق چلائیں۔ حکومت کو اس خطرناک راستے پر چلنے سے گریز کرنا چاہئے اور اس اہم مسئلے پر مسلم علماء اور بالخصوص مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمے داروں سے بات کر کے آگے بڑھنا چاہئے۔
یو این آئی۔ ع ا۔