NationalPosted at: Aug 3 2024 5:44PM کمیشن کو ای وی ایم پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہیے: کانگریس
نئی دہلی، 3 اگست (یو این آئی) کانگریس نے کہا ہے کہ حال ہی میں عام انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ایک تجزیہ سامنے آیا ہے جس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) میں گڑبڑی کی بات کہی گئی ہے اورالیکشن کمیشن کو اس پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہیے۔
کانگریس لیڈر سندیپ دکشت نے ہفتہ کو پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ الیکشن کمیشن ای وی ایم کے نتائج کے بارے میں کسی بھی قسم کے شکوک کو مسترد کرتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ووٹنگ مشینوں میں کوئی بے ضابطگی نہیں ہے، لیکن حالیہ تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی اور آخری انتخابی نتائج میں فرق ملا ہے جو ای وی ایم پر سوال کھڑے کرتا ہے۔
مسٹر دکشت نے کہا کہ 'وائس آف ڈیموکریسی' نام کی ایک تنظیم نے حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج پر ایک تجزیہ کیا ہے۔ تجزیہ کے مطابق ابتدائی مرحلے میں اعلان کردہ اعداد و شمار اور آخری مرحلے میں حتمی اعداد و شمار میں فرق ہے۔ قومی سطح پر ابتدائی اور حتمی اعداد و شمار میں چھ فیصد کا فرق ہے تو کیا یہ نتائج درست تھے؟
انہوں نے کہا، "الیکشن کمیشن نے ہر مرحلے کے حتمی اعداد و شمار کئی دن بعد دیے۔ یہ تب ہے جب کہا جاتا ہے کہ ای وی ایم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے، ای وی ایم کے ذریعے سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔
جب ای وی ایم سے ووٹنگ شروع ہوتی ہے تو ہر دو گھنٹے بعد یہ ڈیٹا الیکشن کمیشن کو بھیجنا پڑتا ہے کہ بوتھ پر کتنی ووٹنگ ہوئی ہے۔ اگر ہم ریاستی سطح پر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ حیرت انگیز طور پر آندھرا پردیش اور اڈیشہ میں 12.5 فیصد ووٹ بڑھ جاتا ہے۔
اتفاق سے اڈیشہ اور آندھرا پردیش میں بی جے پی اور اس کے اتحاد نے انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ای وی ایم کے اس دور میں اگر اعداد و شمار میں اتنا فرق ہے تو اس سے پورے انتخابی عمل پر سوال اٹھتے ہیں۔
مسٹر دکشت کے مطابق اس بارے میں جب الیکشن کمیشن سے پوچھا گیا تو کمیشن نے جواب دیا، ’’انٹرنیٹ جیسے مسائل کی وجہ سے مکمل معلومات نہیں دے سکتے تھے، لیکن الیکشن کمیشن نے ایک اور ڈیٹا جاری کیا تھا جس کا جواب ہی ان پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ 2019 میں بھی ہم کچھ فیز میں تاخیر سے ڈیٹا فراہم کرسکے تھے لیکن اس وقت بھی سات بجے جاری ہونے والے ڈیٹا اور حتمی ڈیٹا میں ایک فیصد سے بھی کم فرق تھا۔ کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اگر آئینی ادارے کا کام براہ راست جمہوریت پر اثر انداز ہوتا ہے تو انہیں اپنا موقف پیش کرنے کی ذمہ داری بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ووٹنگ مشینوں میں گڑ بڑی ہوتی ہے اور سب مانتے ہیں کہ مشینوں میں گڑ بڑی ہے، لیکن الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ مشینوں میں کوئی خرابی نہیں ہے تو پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جہاں 907 ووٹ ڈالے گئے وہاں 970 ووٹ کیسے ہوجاتے ہیں اور جہاں 970 ووٹ پڑتے ہیں وہاں 960 کیسے نظر آتے ہیں؟
مسٹر دکشت نے کہا، "اس رپورٹ کا کئی طریقوں سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کون کتنے فرق سے جیتا ہے اور کہاں ووٹ کا فیصد کتنا بڑھا ہے۔ ہم الیکشن کمیشن سے اس رپورٹ کا جواب مانگتے ہیں کیونکہ اس پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن نے اس رپورٹ کا تسلی بخش جواب نہیں دیا تو یہ ایک سنگین سوال بن جائے گا۔
یواین آئی۔الف الف