NationalPosted at: Jan 31 2018 12:59PM تنگ حال بلدیاتی اداروں کیلئے بڑھتی شہری آبادی بڑا چیلنج
نئی دہلی، 31 جنوری ( یواین آئی) حکومت نے ایک طرف جہاں ملک میں اسمارٹ سٹی بنانے کے لئے 'اسمارٹ سٹی مشن'،’ قومی شہری رہائش پالیسی‘ اور’ سوچھ بھارت مشن‘ جیسے کئی کثیر المقاصد منصوبے شروع کر رکھے ہیں تووہیں دوسری طرف شہروں میں پانی، بجلی اور فضلہ کی نکاسی جیسی بنیادی عوامی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ داری سنبھالنے والے مقامی بلدیاتی اداروں کے ہاتھ انتہائی تنگ ہیں اور وہ اپنی لاگت کا 50 فیصد اخراجات بھی وصول نہیں کرپا رہے ہیں۔
مالی سال 2017-18 کے اقتصادی سروے میں اقوام متحدہ کی’ ورلڈ سٹی رپورٹ 2016‘ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سال 2030 تک ہندوستان میں سات میگاسٹي ہوں گے جن میں سے ہر ایک کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہو گی ایسے میں بلدیاتی اداروں کے لیے اتنی بڑی آبادي کے لئے سیکورٹی کے انتظامات ، پانی،فضلہ کی نکاسی ، پانی، بجلی اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات حاصل کرناانتہائی مشکل کام ہوگا۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ سال 2031 میں ملک کی کل شہری آبادی بڑھ کر 60 کروڑ ہو جائے گی اور اگلے 20 سال کے دوران شہری بنیادی ڈھانچے کے لئے 2009-10 کی قیمتوں کی بنیاد پر تقریباً 39 لاکھ کروڑ روپے کی ضرورت پڑے گی۔ ان میں سے 17 لاکھ کروڑ روپے سڑکیں بنانے کے لئے، آٹھ لاکھ کروڑ روپے پینے کے پانی، پانی/فضلہ نکالنے کے لئے
اور ان کے رکھ رکھاؤ کے لئے الگ سے 20 لاکھ کروڑ روپے کی ضرورت پڑے گی لیکن گزشتہ سرکاری اعداد و شمارکو دیکھیں تو یہ سہولیات فراہم کرنے والے زیادہ تر بلدیاتی اداروں کے ہاتھ انتہائی تنگ ہیں اور وہ اپنے اخراجات کا 50 فیصد حصہ بھی بڑی مشکل سے حاصل کر پا رہے ہیں۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ مقامی بلدیاتی اداروں کے پاس ’نگر پالیکا بانڈ‘، ’پی پی پی‘، ’کریڈٹ رسک گارنٹی‘ وغیرہ بانڈز سے فنڈز اکٹھا کرنے کا آپشن موجود ہے لیکن یہ کام بھی آسان نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے انہیں پہلے اس کی فعالیت کے بل پر ایک ساکھ بنانی ہوگی۔
یو این آئی،اظ 1249