NationalPosted at: Jan 17 2021 7:39PM ہمہ جہت ترقی کے لئے مسلمانوں کو مشترکہ نظام تعلیم اپنانے کی ضرورت۔ ڈاکٹر تسلیم رحمانی
نئی دہلی، 17/جنوری (یو این آئی)مسلمانوں پر مشترکہ نظام تعلیم اپنانے پر زور دیتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہاکہ مسلمانوں کو ایسا نصاب تعلیم وضع کرنا ہوگا جس میں تمام علوم فنون کا احاطہ کیا جاسکے یہ بات انہوں نے آل انڈیا تنظیم علمائے حق کے زیر اہتمام’کل ہند تعلیمی کنونشن‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہاکہ عصری تعلیم کے ساتھ دینوی تعلیم بھی ضروری ہے اور جتنے بھی مسلم سائنس داں ہوئے ہیں ان میں بیشتر عالم دین تھے۔ انہوں نے کہاکہ ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں سے ڈاکٹر بھی نکلیں، انجینئر بھی نکلیں، دانشوری بھی نکلیں، فلسفی، حساب داں اور سائنس داں بھی نکلیں۔ہمیں تعلیمی تفریق سے گریز کرتے ہوئے ایسا تعلیمی نظام اپنانے کی ضرورت ہے جو تمام علوم و فنون کا احاطہ کرسکے۔ انہوں نے تمام شعبوں میں اپنا ادارہ کھولنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ اگر مسلمانوں نے اس سمت میں قدم نہیں اٹھایا تو انہیں چند برسوں میں حاشیئے پر دھکیل دیا جائے گا اور کسی ادارے میں ان کے لئے جگہ نہیں بچے گی۔
اس کنونش میں خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علمائے حق کے قومی صدر مولانا اعجاز عرفی قاسمی نے کہاکہ تعلیم وتعلم سے ہی تمام اقوام ومذہب کی ترقی وبقا کا راز وابستہ ہے۔آج مغربی دنیا اس لئے ترقی کے اوج ثریا پر فائز ہے کہ انہوں نے تعلیم وتدریس کی راہ سے ترقی کے راز کو پالیا ہے۔تعلیم وہ شاہ کلید ہے جس کے ذریعہ ترقی اور خوشحالی کے بند دروازوں کو کھولا جاسکتا ہے۔آج ہندوستانی مسلمان معاشی،سیاسی اور اقتصادی ہر میدان میں ناگفتہ بہ حالت کے شکار ہیں۔تعلیمی بیداری لانے کے لئے تنظیم نے آج یہ تعلیمی کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومتی کوشش اور سرکاری منصوبوں کی تنفیذ کے باوجود ہمارا یہ ملک مجموعی طور پر آج تک ناخواندگی کی تاریکی کے بھنور میں ڈوبا ہوا ہے۔مسلمان تعلیمی میدان میں اتنی پسماندہ اور زوال پذیر قوم بن چکی ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیروکار ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف ملک کی برسراقتدار حکومتوں کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جاسکتابلکہ یہ صحیح ہے کہ کسی طرح کم ذمہ دار مسلمان بھی نہیں ہے۔آج جو کچھ علم کی خوبومسلمانوں میں موجود ہے اس کا سہرا مدارس ومکاتب پر باندھا جانا چاہئے۔ہمارے علماء نے ملک کے گوشے گوشے میں مدارس کا نیٹ ورک نہ پھیلا یا ہوتا تو اس وقت کی تعلیمی حالت کیا ہوتی اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔مدارس کی گود میں پرورش پاکر نکلنے والے ہمارے یہ علماء دینی میدان میں بلکہ عصری میدان میں بھی ملک وقوم کی فلاح وبہبود کے لئے کام کررہے ہیں۔
سابق رکن پارلیمنٹ سالم انصاری نے بھی دینی اور عصری دونوں تعلیم کے حصول پر زور دیتے ہوئے کہاکہ مدارس اسلامیہ کے فارغین نہ صرف عصری درسگاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں بلکہ سول سروس میں اپنا پرچم بلند کر رہے ہیں۔ انہوں نے علم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہاکہ جہاں علم ہوتا ہے وہاں شہرت اور دولت خود بخود چلی آتی ہے۔
دعوت اسلامی پر کام کرنے والے مولانا کلیم صدیق نے مشاہیر علمائے پر نمبر نکالنے پر مولانا اعجاز عرفی کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے وہ کام کیا ہے جو اکیڈمیاں کرتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ برائی کی عمر لمبی نہیں ہوتی ہے اور اندھیرا اس وقت تک رہتا ہے جب تک ہم چراغ نہیں جلاتے۔ انہوں نے کہاکہ ہیں اندھیرے کو جگہ نہیں دینی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت ایک طبیب کی ہے جسے اپنے مریضوں سے دشمنی نہیں رکھنی ہے اور کسی بھی طبیب کو مریض کو دشمن زیب نہیں دیتا۔
جماعت اسلامی سے وابستہ مسٹر نصرت علی نے کہاکہ دارالعلوم صرف ایک مدرسہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے اور وہاں کے فارغین نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو تاریخ میں درج ہے اور ہندوستان کی تاریخ دارالعلوم دیوبند کے فارغین کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہاکہ دارالعلوم کے فضلاء نے ہر موقع پر خواہ وہ قادیانی کے خلاف تحریک ہو، یا الحاد و دہریت کے خلاف ہر موقع پر آگے آکر اس کا سدباب کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ نے اس موقع پر کہا کہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے سڑکوں پر اترنا ضروری ہے۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی طاقت کو پہنچانیں اور دلت اور پسماندہ طبقات کی حفاظت کے لئے آگے آئیں اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کو ظلم سے نجات دلائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ آئین کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔
سماجی کارکن یونس صدیقی نے کہا کہ تعلیم ہی وہ کنجی ہے جس سے کامیابی کے تمام دروازے کھولے جاسکتے ہیں۔ ہمیں تعلیم کے میدان میں سرگرم رول ادا کرنے اور تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لئے آگے انا ہوگا اسی وقت مسلمانوں کی حالت میں بہتری آئے گی۔ اس کے علاوہ متعدد علمائے کرام نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اسی کے ساتھ اکابردیوبند کا اجرا بھی عمل میں اور متعدد شخصیات کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔
یو این آئی۔ ع ا۔