NationalPosted at: Jan 27 2021 9:38PM طنزومزاح کے ممتاز شاعر زبیرالحسن غافل کا انتقال، مشتاق احمد نوری اور حقانی القاسمی کا اظہار رنج وغم
نئی دہلی/ ارریہ، 27جنوری (یو این آئی)طنز و مزاح کے ممتاز شاعر اور سابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج زبیر الحسن غافل کل گزشتہ رات پٹنہ کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر تقریباً 77سال تھی۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے ایک بیٹی ہیں۔ ان کی نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں کملداہا میں اداکی جارہی ہے۔
ذرائع کے مطابق دودن قبل طبیعت بگڑی تو پورنیہ کے اسپتال میں داخل کرائے گئے اور پرسوں رات طبیعت زیادہ بگڑی تو کل صبح پٹنہ کے پارس ہوسپٹل میں بھرتی کیا گیا اور شام 7.30 بجے مالکِ حقیقی سے جاملے۔وہ طویل عرصہ سے گردے کے عارضہ میں مبتلا تھے اور ان کے گردے کی پیوندکاری بھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ بہتر محسوس کرنے لگے تھے ادبی وشاعری کی محفل میں حصہ لیتے تھے۔
مسٹر زبیر الحسن غافل طنز و مزاح کے مشہور شاعر تھے اور سیمانچل میں اپنی شناخت رکھتے تھے۔ ان کی شاعری پر البم بھی تیار کیا گیا تھا۔ وہ انتہائی مشفق، علاقے کے لوگوں کی خیرو خبر رکھتے تھے۔ ان کی پیدائش 7جنوری 1944میں ہوئی تھی۔ انہوں نے 1966میں پورنیہ کالج سے بی ایس سی اور پٹنہ یونیورسٹی سے 1968میں ایل بی بی کیا تھا اور اپنے آبائی شہر ارریہ میں 1969میں وکالت شروع کی تھی۔ اس کے بعد وہ جج منتخب کئے گئے اور مختلف مقامات پر انہوں نے اپنی خدمات پیش کی تھی۔ 2004میں ریٹائرمنٹ کے بعد لوک عدالت کے جج بھی رہے اور وہ اپنے فیصلے کے لئے جانے جاتے تھے۔
ان کے تین بیٹوں میں سے ایک جوائنٹ انکم ٹیکس کمشنر اسلم حسن (آئی آر ایس) ہیں جو خود بھی شاعر ہیں اور کوی سمیلین اور ادبی محفلوں کی رونق بڑھاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے 2012میں اپنے والد زبیر الحسن غافل کی رہنمائی میں اپنے آبائی گاؤں میں آل انڈیا مشاعرہ کروایا جو کافی مقبول ہوا تھا اور مشاعرہ بارش کے باوجود صبح تک چلا تھا جس میں ملک بھر کے شعراء و شاعرات نے شرکت کی تھی۔
ا ن انتقال پر علمی وادبی دنیاکے سرکردہ شخصیات نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ بہار اردو اکیڈمی کے سابق سکریٹری اور سابق بیوروکریٹ مشتاق احمد نوری نے ان کے انتقال پر انتہائی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ دیرینہ مشفق اور ہمدردسے محروم ہوگئے ان کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ انہوں نے کہاکہ زبیر بھائی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے طنزومزاح کے اچھے شاعر تھے سنجیدہ شاعری بھی کرتے تھے ان کا شعری مجموعہ ’اجنبی شہر‘شائع ہوچکا تھا جس کا پیش لفظ جناب رضانقوی واہی نے تحریر فرمایا تھا۔ اس کا اجرا بہار اردو اکادمی کے ہال میں کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ بہار اردو اکادمی پٹنہ کی جانب سے میرے سکریٹری شپ کے دور میں انہیں مجموعی خدمات کے لئے ایوارڈ دیا گیا تھا اور اکادمی آپ تک کے پروگرام کے تحت ارریہ میں ان کی پذیرائی بھی کی گئی تھی۔انہوں نے کہاکہ وہ بے حد منکسرالمزاج تھے اور اپنے خلوص کا مظاہرہ بھی کرتے رہتے تھے۔اکثر و بیشتر ارریہ میں انکی رہائش گاہ میں ادبی محفل منعقد کی جاتی تھی جس میں مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا کئی بار انہوں اس حقیر کے اعزاز میں بھی محفل سجائی۔ ان کے ابا ظہورالحسن کے ساتھ بھی مجھے مشاعرہ پڑھنے کا اتفاق ہوا اور ان کے صاحب زادے اسلم حسن بھی اچھے شاعر ہیں اور پٹنہ میں اکسائز کمشنر کے عہدے پر فائز ہیں۔انہوں نے کہاکہ ان کے انتقال سے ارریہ کے ایک زرریں ادبی دورہ کا خاتمہ ہوگیا۔
مشہور نقاد اور صاحب طرز ادیب حقانی القاسمی نے انتہائی رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے زبیر الحسن غافل کے انتقال کوسیمانچل کا ایک عظیم خسارہ قرار دیا۔ وہ بہت ہی مشفق اور چھوٹوں کاخیال رکھنے والے تھے۔ وہ اپنے شناسا کی خیریت دریافت کرتے تھے۔ان کا شعری مجموعہ ’اجنبی شہر‘ ان کے طنز و مزاح کا عمدہ نمونہ ہے۔ ان کی شاعری اور اپنی ظرافت سے وہ بھی کہہ جاتے تھے جو عام طور نہیں کہہ سکتے تھے۔ انہوں نے طنزو مزاح کانشانہ اپنے پیشے کے ساتھ سسٹم کوبھی نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ رواداری اور غمگساری کے امین تھے۔ ان کے انتقال سے بہار ہی نہیں ملک میں طنزو مزاح کے باب میں ایک زبردست خلا پیدا ہوگیا ہے۔
یو این آئی۔ ع ا۔