NationalPosted at: Jan 4 2018 1:23PM تین طلاق ،نابالغ بیوی سے جنسی تعلقات اور پرائیویسی کاحق- عدالت عظمیٰ کا اصلاحی اور روشن چہرہ
نئی دہلی، 4 جنوری (یواین آئی) سپریم کورٹ نے گزشتہ سال طلاق بدعت (طلاق ثلاثہ ) کو غیر قانونی ٹھہرانے، پرائیویسی کے حق کو بنیادی حق قرار دینے اور نابالغ بیوی سے جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے عصمت دری کے زمرے میں رکھنے جیسے تاریخی فیصلوں سے جہاں اپنا اصلاحی اور روشن چہرہ پیش کیا، وہیں کلکتہ ہائی کورٹ کے رٹائرڈ جج سی ایس كرنن کو جیل بھیج کر دکھایا کہ قانون کے سامنے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں ہے۔
آئینی بنچ نے سائرہ بانو اور دیگر کی درخواستوں پر گزشتہ سال 22 اگست کو ایک بار میں تین طلاق کہہ کر نکاح کو ختم کرنے کے فعل کو غیر آئینی قرار دے کر مسلم خواتین کو بہت بڑی راحت فراہم کی۔ مسلم خواتین کو تو کئی بار ای میل، خط یا کسی دوسرے ذریعہ سے طلاق دے دیا جاتا تھا۔ اس کے شکار مسلم خواتین انصاف کے لئے سپریم کورٹ پہنچی تھی، جہاں سے انہیں بڑی کامیابی ملی، کیونکہ آئینی بنچ نے اکثریت کے فیصلے کی بنیاد پر تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا۔ پرائیویسی کے حق کو بنیادی حق کے زمرے میں رکھنا عدالت عظمی کے گزشتہ سال کے اہم فیصلوں میں شمار رہا۔ عدالت نے’ آدھار‘ سے منسلک ایک معاملے میں واضح کیا کہ پرائیویسی کا حق آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت رہنے اور ذاتی آزادی کے حق کا قدرتی حصہ ہے۔ نابالغ بیوی سے جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے عصمت دری کے زمرے میں رکھنے کا کورٹ کا فیصلہ بھی دور رس نتائج والا ثابت ہوگا، کیونکہ یہ فیصلہ بچوں کی شادی کی طرح سماجی برائیوں پر روک لگانے کی سمت میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔
دراصل، بچوں کے تحفظ جنسی جرائم (پوكسو) قانون 2012 کے تحت 18 سال سے کم عمر والوں کو 'بچوں' کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور ایسے بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات بنانے کے لیے عصمت دری مانا گیا ہے، جبکہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 375 کی شق دو کے تحت 15 سال سے زیادہ عمر کی بیوی کے ساتھ جنسی تعلقات کو عصمت دری نہیں مانا گیا تھا۔ کورٹ کے حالیہ فیصلے سے دونوں قوانین کے درمیان ثنویت ختم ہو گئی ہے اور اس کا بچوں کی شادی کے خلاف مہم میں دورس اثر پڑے گا۔
جاری،یو این آئی،اظ 1149