EntertainmentPosted at: Mar 8 2025 11:15AM ساحر لدھیانوی : ایک شاعر ایک نظریہ

( یوم پیدائش 8مارچ کے موقع پر )
نئی دہلی ،8مارچ (یواین آئی)ساحر لدھیانوی کے اندر اپنے نام کی مناسبت سے لوگوں کے دل ودماغ کو مسحورکرنے کی صلاحیت موجودتھی۔انکا کلام واقعی لوگوں پر جادوکی طرح کام کرتاتھا ۔دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی قارئین اور سامعین آج بھی انکے اشعار اور نغمے گنگناتے ہیں ۔یہی حقیقت ہے اور یہی انکی مقبولیت کی سند بھی ہے ۔نقاد انکی شاعری کو جس خانے میں بھی رکھیں اس سے ان کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی ۔انھوں نے ایسے ایسے فلمی نغمے تحریر کیے جونہ صرف ادبی معیار پر کھرے اترتے ہیں بلکہ عوام میں آج بھی بے حد مقبول ہیں ۔
ساحر لدھیانوی کا حقیقی نام عبدالحئی تھا، وہ 8 ؍مارچ 1921ء کو لدھیانہ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔انو ں نے بچپن اور نوجوانی میں بہت ہی سختیاں جھیلی تھیں۔ 1937ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخل ہوئے مگر اپنی بے توجہی کے سبب وہاں سے نکالے گئے۔ پھر دیال سنگھ کالج کا رخ کیا ،جہاں ایک معاشقے کے سبب انیںپ کالج سے نکال دیا گیا اور وہ لاہور چلے گئے ۔ ترقی پسند نظریات کی بدولت قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں ان کے خلاف وارنٹ جاری ہوئے، جس کے سبب وہ ہندستان آگئے ۔ پھر انھوں نے شاعری ہی کو اپنا اوڑھنا اوربچھونا بنا لیا۔ طالب علمی کے زمانے ہی میں ان کا شعری مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ شائع ہو چکا تھا، جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔ساحر لدھیانوی بیک وقت ترقی پسند، نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن اور فلمی شاعر تھے ۔ انھوں نے فلمی نغموں میں بھی اپنی فکر ، تخیل اور تصور سے کام لیا۔ جیسے :
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
ساحر فلمی دنیا میں اپنے نظریات ساتھ لے کر آئے اور دوسرے ترقی پسندنغمہ نگاروں کے مقابلے میں انھیں اپنے نظریات کو عوام تک پہنچانے کے مواقع بھی زیادہ ملے، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انھوں نے جن فلم سازوں کے ساتھ کام کیا، وہ خود ترقی پسندانہ خیالات کے مالک تھے۔ اس سلسلے میں گرودت، بی آر چوپڑا اور یش راج چوپڑا کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
کالج سے نکالے جانے کے بعد ، ان کے دل پر جو زخم لگا تھا وہ شاعری کی صورت میں ایک سیل رواں بن کر بہا۔ مجبوریوں اور مشکلوں کے اس دور میں ساحر نے کبھی اپنی ذاتی مشکلات دور کرنے یا زندگی بنانے پر توجہ نہیں دی۔ البتہ ان کی ایک دلی آرزوتھی کہ فلمی گیت لکھنے اور اس میدان میں ان کا پرچم بلند رہے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔
ساحر کا پہلا مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ جذباتی، رومانوی اور انقلابی شاعری کا دلچسپ امتزاج ہے۔ اس مجموعے کی ایک نظم ’تاج محل‘ نے لوگوں کے نظریے پر کاری ضرب لگائی اور ایک طرح سے مغل بادشاہ کی تعمیر کا مذاق بنا دیا۔ اس نظم نے ساحر کو ہندوستان میں راتوں رات شہرت بخشی:
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارالیکر
ہم غریبوں کی محب کا اڑایاہے مذاق
مری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
نامور شاعر شکیل بدایونی نے ساحر کی اس نظم کے جواب میں ایک گیت لکھا جس کے تعلق سے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔واقعہ یوں ہے کہ فلم ساز رام مکھرجی نے شکیل بدایونی کو اپنی فلم لیڈر کے گیتوں کے لیے منتخب کیا اور کہا ‘‘ وہ ایک گیت تاج محل کے پس منظر میں فلمانا چاہتے ہیں۔
آپ محبت کے شاعر ہیں ،مجھے آپ سے ایک خوب صورت گیت چاہیے جو تاج محل کی عکاسی بھی کرے اور اسے محبت کی مثال بنا کے بھی پیش کرے۔ مگر مجھے ایک ڈر یہ ہے کہ ہندوستان میں ساحر لدھیانوی کے چاہنے والے بہت ہیں اور ان میں نوجوان نسل کی تعداد زیادہ ہے اور نوجوانوں نے اس نظم کا اثر بھی قبول کیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو، ہماری فلم لیڈر کا تاج محل کے پس منظر میں فلمایا ہوا گیت فلم کی ناکامی کی وجہ نہ بن جائے کیونکہ ساحر لدھیانوی کی نظم بڑی سحر انگیز ہے۔’’ یہ سن کر شکیل بدایونی نے ہدایت کار رام مکھرجی سے برملا کہا تھا ‘‘ادب کی دنیا اور ہے اور فلم کی دنیا اور ہے۔’’ اور شکیل بدایونی کا یہ گیت بھی آج اتنا ہی مقبول ہے جتنی ساحر کی مذکورہ نظم ۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اس سے یہ اندازہ بہ خوبی لگایاجاسکتاہے کہ ہرفردکا کسی چیز کو دیکھنے کا نظریہ الگ ہوسکتاہے، اس کے جذبات وخیالات مختلف ہوسکتے ہیں ۔
ساحر کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتاہے ،جب کارل مارکس کے ایک مخلص مرید کی طرح ’’تمہارے غم کے سوا اور بھی تو غم ہیں مجھے‘‘ کہہ کر دوسری راہ اختیار کر لیتا ، جہاں قدم قدم پر بھوک، افلاس، انسانیت کی آہ و باب، بے کفن لاشوں، زرد بچوں، بلکتے ہوئے چہروں، محکومی اور سب سے زیادہ جاگیردارانہ نظام کی غلط تقسیم سے نمٹنا پڑتا ہے۔ وہ جب وطن کی غربت مجبوری اور غلامی کو دیکھتے ہیں تو صرف اتنا کہتے ہیں:
’’یہ غم بہت ہیں میری زندگی مٹانے کو‘‘
ساحر کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انتہائی آسان زبان اور عام فہم الفاظ کے ذریعے اپنے سچے خیالات و جذبات کو پیش کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ۔ یہ خوبی تلخیاں کی پہلی نظم ‘‘ ردِعمل’’میں بھی دیکھی جاسکتی ہے :
چند کلیاں نشاط کی چن کر
مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
ساحر کی شاعری میں احساس کی گہرائی بدرجہ اتم موجود ہے ۔مثال کے طورپر یہ نظم :
تعارف روگ بن جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہوممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ساحر کی زندگی کا سفر لدھیانہ میں ریلوے لائن کے کنارے ایک چوبارے سے شروع ہوا اور 25 اکتوبر 1980ء کو غمِ دوراں اور غمِ جاناں سے نمٹتے ہوئے ممبئی میں ختم ہوا اور وہیں ان کی تدفین ہوئی لیکن ساحرلدھیانوی نے دنیا پر یہ ثابت کردیاکہ وہ پل دوپل کے شاعرنہیں بلکہ انھوں نے جو اشعار کہے ہیں وہ دہائیوں تک لوگوں کےدل ودماغ پر راج کریں گے ۔
یواین آئی۔ایف اے۔