OthersPosted at: Oct 10 2025 6:00PM بہار انتخاب میں پارٹیوں کے ووٹ فیصد میں اضافہ، مگر نشستیں گھٹ گئیں،بی جے پی اور آر جے ڈی کی کارکردگی میں دلچسپ ٹرینڈ نظر آیا

پٹنہ، 10 اکتوبر (یو این آئی): بہار کی سیاست میں مختلف پارٹیوں کے ووٹ فیصد اور نشستوں کی تعداد کے درمیان ہمیشہ ایک دلچسپ رجحان دیکھنے کو ملا ہے۔ کئی بار زیادہ ووٹ فیصد حاصل کرنے والی پارٹی کو کم نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔ دراصل بہار میں اتحاد کی پیچیدہ سیاست اور نشستوں کی تقسیم کی حکمت عملی نے بار بار اس عام تاثر کو غلط ثابت کیا ہے کہ زیادہ ووٹ فیصد حاصل کرنے والی پارٹی کو زیادہ نشستیں ملتی ہیں۔
عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے ووٹ فیصد میں اضافہ اس کی نشستوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے، لیکن بہار کی انتخابی سیاست نے اس نظریے کو بارہا چیلنج کیا ہے۔ گزشتہ تین اسمبلی انتخابات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)جیسی بڑی جماعتوں کو ووٹ فیصد میں اضافہ ہونے کے باوجود نشستوں میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
جگجیون رام پارلیمانی اسٹڈی اینڈ پولیٹیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر نریندر پاٹھک کا ماننا ہے کہ یہ صورتحال بنیادی طور پر اتحاد کی سیاست اور نشستوں کی تقسیم کی حکمت عملی سے جڑی ہوئی ہے، جس نے بڑی پارٹیوں کو اگرچہ زیادہ ووٹ دلائے، مگر محدود نشستوں پر الیکشن لڑنے کے باعث کل جیت کی تعداد میں کمی درج کی گئی۔
بہار اسمبلی انتخابات کے دوران آر جے ڈی کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو یہ رجحان واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ سال 2010 میں آر جے ڈی کو 18.84 فیصد ووٹ ملے، جو بی جے پی سے 2.35 فیصد زیادہ تھے، اس کے باوجود پارٹی صرف 22 نشستوں پر سمٹ گئی۔
سال 2015 کے اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی کے ووٹوں میں 0.49 فیصدکی معمولی کمی ہوئی اور پارٹی کو 18.35 فیصد ووٹ ملے، لیکن پارٹی کے اراکین اسمبلی کی تعداد بڑھ کر 80 ہو گئی۔ اس دوران پارٹی مہاگٹھ بندھن کا حصہ تھی اور آر جے ڈی نتیش کمار کی قیادت میں انتخابات میں اتری تھی۔
وہیں سال 2020 کے اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی کو پچھلے انتخابات کی بہ نسبت تقریباً 5 فیصدزیادہ ووٹ ملے اور پارٹی نے 23.45 فیصد ووٹ حاصل کیے، لیکن اسمبلی میں اس کی نشستیں گھٹ کر 75 رہ گئیں۔ یعنی ووٹ فیصد میں اضافہ، لیکن نشستوں میں کمی۔
بی جے پی کے اعداد و شمار بھی اسی رجحان کی تصدیق کرتے ہیں۔ سال 2010 میں بی جے پی کو 16.49 فیصد ووٹ اور 91 نشستیں حاصل ہوئیں۔
سال 2015 میں بی جے پی کے ووٹ فیصد میں تقریباً 8 فیصدکا زبردست اضافہ ہوا، لیکن نشستیں گھٹ کر صرف 53 رہ گئیں۔ اس انتخاب میں بی جے پی نے جنتا دل یونائیٹڈ سے الگ ہو کر میدان میں اپنی طاقت آزمائی تھی۔
جبکہ سال 2020 میں بی جے پی کے ووٹ فیصد میں کمی آئی، لیکن اس کی نشستیں بڑھ کر 74 ہو گئیں۔ اس انتخاب میں جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو)کے قومی صدر نتیش کمارقومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے)کا حصہ تھے اور نشستوں کی تقسیم اتحادی جماعتوں کے ساتھ کی گئی تھی، جس کی وجہ سے بی جے پی کو زیادہ اور بہتر نشستوں پر الیکشن لڑنے کا موقع ملا۔
سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر پاٹھک کے مطابق، یہ رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بہار میں اتحاد کی سیاست نے روایتی ووٹ۔نشست مساوات کو الٹ دیا ہے۔ اب صرف زیادہ ووٹ حاصل کرنا جیت کی ضمانت نہیں رہا، بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ کسی پارٹی کو کن نشستوں پر لڑنے کا موقع ملا اور اتحاد میں اس کا حصہ کتنا رہا۔
یواین آئی۔۔ قمر۔ایس ۔وائی۔