NationalPosted at: Apr 20 2025 2:58PM عدلیہ اور پریس جمہوریت کے دواہم ستون ہیں اور دونوں پر حملے ہورہے ہیں: جسٹس مدن بی لوکر

نئی دہلی، 20اپریل (یو این آئی) ہندوستان میں صحافت کی دگرگوں حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ)مدن بی لوکر نے کہاکہ عدلیہ اور پریس 'ہماری جمہوریت کے دو اہم ستون ہیں اور دونوں کواہم کردار ادا کرنا چاہئے یہ بات انہوں نے نئی دنیا فاؤنڈیشن کے میڈیا فار یونٹی ایوارڈز 2025 میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہا کہ ”آزادی صحافت اور عدلیہ کی آزادی دونوں پر حملے ہو رہے ہیں“۔”عدلیہ کو ایک مختلف قسم کا حملہ محسوس ہوا، اور یہ کیسوانند بھارتی کے فیصلے سے نکلا(ہندوستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے نظریے پر) لیکن اس کے فوراً بعد، 1975 میں ہمیں ایمرجنسی کا سامنا کرنا پڑا اور پریس کو شدید حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ عدلیہ اور پریس دونوں کو سخت امتحان کا سامنا کرنا پڑااور اس کے بعد کچھ تاریخی فیصلے آئے اور عدلیہ اور پریس دونوں کی واپسی ہوئی،“
سپریم کورٹ کے سابق جج نے کہا کہ آج پھر پریس کی آزادی اور عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہو رہا ہے۔ پریس اور عدلیہ کی آزادی پر حملے کا انداز مختلف ہے لیکن حملہ جاری ہے۔یہ بتاتے ہوئے کہ جیل میں صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ ہیں۔
جسٹس لوکور نے عمر خالد اور گلفشاں کی مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ کہا کہ یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں ضمانت کیوں نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ اس لیے ہے کہ عدلیہ ان لوگوں کو ضمانت دینے سے ڈرتی ہے حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے؟ یہ کچھ سوالات ہیں جو ہمیں پوچھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے ملک کی موجودہ صورتحال کو ہنگامی صورتحال سے تشبیہ دی اور کہا کہ ”آزادی صحافت اور عدلیہ کی آزادی دونوں ہی حملے کی زد میں ہیں“۔
سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے ہندوستانی میڈیا کی کرتی ہوئی شاخ پر افسوس کا اظہار کیاا اور کہا کہ ہندوستانی میدیا کی معتبریت کا یہ حال ہوگیا ہے کہ اس کی رینکنگ گرتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ 180 میں ہماری رینکنگ 159ہے۔ ہم اپنے پڑوسی ملک سے بھی نیچے ہیں۔ انہوں نے میڈیا کے زوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا والے ہر روز رات نو بجے قوم کو بتانے لگ جاتے ہیں کہ صورت حال کیا ہے، اگر وہ صحیح صورت حال بتاتے تو ہماری ریننگ اچھی ہوتی۔
انہوں نے کہاکہ یہ ہمارے لئے شرم کی بات ہے کہ بہت سے چھوٹے ممالک کی رینکنگ ہندوستان سے اچھی ہے۔ انہوں نے ایوارڈ یافتگان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی میڈیا کی جو کچھ بھی تھوڑی بہت عزت ہے وہ آپ کی وجہ سے ہے۔ اس صورت حال میں بھی آپ نے سچ کا دامن تھامے رکھا ہے۔
نئی دنیا فاؤنڈیشن کے سربراہ شاہد صدیقی نے افتتاحی خطبہ پیش کیا۔
ایوارڈ حاصل کرنے والے سینئر صحًافی دی وائر کے بانی ایدیٹر سدھارتھ وردراجن نے بھی میڈیا کی صورت حال افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ آج صحافیوں کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی ہے۔ انہوں نے صدیق کپن، پربیرپرکائستھ، جموں و کشمیر سمیت ملک کے مختلف حصوں میں صحافیوں کے لئے جانے والے مظالم کا ذکر کیا۔
پربھاش جوشی ایوارڈ حاصل کرنے والے اوم تھانوی نے بھی صحافت کی صورت حال پر روشنی ڈالی۔
جسٹس لوکور، ایس وائی قریشی اور شاہد صدیقی اور میرا بینیگل نے نئی دنیا فاؤنڈیشن ایوارڈز کئی ممتاز صحافیوں کو دیے جن میں سوہاسینی حیدر، ڈپلومیٹک ایڈیٹر، دی ہندو بھی شامل ہیں۔ محترمہ حیدر کو جسٹس لوکور اور آنجہانی کلدیپ نیر کی پوتی مندرا نیر سے 'انگریزی صحافت میں ان کی شراکت' کے لیے کلدیپ نیر میڈیا یونٹی ایوارڈ ملا۔ محترمہ حیدر نے ایوارڈ حاصل کرنے پر کہا'میں اس پلیٹ فارم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جو میرے پاس ہے، جو کہ دی ہندو اخبار ہے۔ یہ ایک ایسے اخبار کی زندہ مثال ہے جس کے لیے تکثیریت ایمان کا مضمون ہے،'
'دیگر ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں تجربہ کار صحافی ارون شوری اور مرنال پانڈے، دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن؛ فلم ساز انوبھو سنہا، صحافی پریتی چودھری، نوین سوری؛ تھیٹر کے چراغ ایم کے رینا؛ اور انڈیا لو پروجیکٹ شامل ہیں۔
یو این آئی۔ ع ا۔