EntertainmentPosted at: Sep 12 2024 6:48PM انجان کے رومانوی نغموں کا دیوانہ زمانہ13ستمبر برسی کے موقع پرممبئی 12 ستمبر (یو این آئی) تقریبا تین دہائیوں سے اپنے نغموں سے ہندی فلم دنیا کو شرابور کرنے والے نغمہ نگار انجان کی رومانی نظمیں آج بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔28 اکتوبر 1930 کو بنارس میں پیدا ہوئے انجان کو بچپن سے ہی شعروشاعري میں گہری دلچسپی تھی۔ اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لئے وہ بنارس میں منعقد تمام مشاعر وں اور شعری نشستوں کے پروگرام میں حصہ لیا کرتے تھے۔اگرچہ مشاعروں کے پروگرام میں بھی وہ اردو کا استعمال کم ہی کیا کرتے تھے۔ایک طرف جہاں ہندی فلموں میں اردو کا استعمال ایک 'پیشن'كي طرح کیا جاتا تھا وہی انجان اپنے نغموںمیں ہندی پر زیادہ زوردیا کرتے تھے۔نغمہ نگار کے طور پر انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1953 میں اداکار پریم ناتھ کی فلم ’گولكنڈا کے قیدی ‘سے کیا تھا۔اس فلم کے لیے سب سے پہلے انہوں نے’ لهر یہ ڈولے کوئل بولے ..اور 'شہیدوں امر ہے تمہاری کہانی 'نغمہ لکھا لیکن اس فلم کے ذریعے وہ کوئی خاص شناخت نہیں بنا پائے۔انجان نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ اس درمیان انھوں نے کئی چھوٹے بجٹ کی فلمیں بھی کیں جن سے انہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اچانک ان کی ملاقات جی۔ایس۔ کوہلی سے ہوئی جن کی موسیقی ہدایت میں انہوں فلم ’لمبے ہاتھ‘ کیلئے ’ مت پوچھ میرا ہے میرا کون‘ نغمہ لکھا۔اس گانے کے ذریعے وہ کافی حد تک اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو ئے ۔تقریباً دس برسوں تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کے بعد 1963 میں پنڈت روی شنکر کی موسیقی سے آراستہ پریم چند کے ناول گودان پر مبنی فلم ’گودان‘ میں انہوں نے ایک نغمہ لکھا ’ چلی آج گوریا پیا کی نگریا ‘ کی کامیابی کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔نغمہ نگار انجان کو اس کے بعد کئی بہترین فلموں میں کام کرنے کے آفر ملے جن میں’بہاریں پھر بھی آئیں گی، بندھن ،کب کیوں اورکہاں، امنگ ، رواج ، ایک ناری ایک برہمچاری، ہنگامہ جیسی کئی فلمیں شامل ہیں۔ساٹھ کی دہائی میں انجان نے موسیقار شیام ساگر کی موسیقی میں کئی غیر فلمی گیت بھی لکھے۔ان کے لکھے ان گیتوں کوبعد میں محمد رفیع، منا ڈے اور سمن کلیاپوری جیسے گلوکاروں نے اپنی آواز دی جن میں محمد رفیع کی آواز میں نغمہ ’میں کب گاتا‘ بہت مقبول ہوا تھا۔جاری۔ یو این آئی۔